ٹائم ٹریول اور اسلام

ٹائم ٹریول اور اسلام

آپ سب نے ٹائم ٹریول یعنی وقت کی مسافت کو تیزی سے آگے پھلانگنا یا پیچھے جانا اس کے بارے میں سنا تو ہوگا بلکہ اس متعلق ہالی وڈ میں بنی کئی فلمیں بھی دیکھی ہونگی۔ جن میں دیکھایا جاتا ہے کہ ایک آدمی آج سے تین سو سال بعد آگے یا پیچھے چلا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ چیزیں آج کل جدید سائنس کی مدد سے سچ ہو رہی ہیں جبکہ دین اسلام میں یہ بہت پہلے کی ہو چکی ہیں۔ جن چیزوں کا ہمیں چودہ سو سال پہلے معلوم ہو چکا سائینس انہیں آج مان رہی ہے۔

مختصرا یہ کہ
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

پھیلا کر گوشہ ء دامنِ تجسس اپنا
سائنس محمد ﷺ کا پتہ پوچھ رہی ہے

اسلام میں ٹائم ٹریولنگ کے یوں تو بے شمار واقعات ہو چکے ہیں جیسے نعمت اللہ شاہ ولی کا مستقبل میں جا کر واپس آنا اور پھر مستقبل کے حالات کو اپنے شعروں میں پیش کرنا وغیرہ ۔ لیکن اسلام کا سب سے بڑا ٹائم ٹریول واقعہ معراج مانا جاتا ہے۔

اگر ہم اس معجزے کو سائنس کے جدید قوانین اور اصولوں پر پرکھیں تو ان لوگوں کے لئے سمجھنا آسان ہوجاتا ہے جو سائنس کی وجہ سے دین پر ایمان رکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔
بہت سارے لوگ جو سفر اسراء و معراج کے ماننے سے انکاری ہیں ان کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ رات کے کچھ لمحوں میں آسمانوں کی سیر کرنا کیسے ممکن ہے؟ ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں جانے کے لئے سب سے تیز ترین روشنی کی رفتار سے بھی اگر سفر کیا جائے تو لاکھوں کروڑوں نوری سال درکار ہوں گے۔ اس سے پہلے کہ ہم سائنس کا ذکر کریں، پہلے ہم سمجھتے ہیں کہ اسراء و معراج ہے کیا۔

جیسا کہ اللہ نے سورة بنی اسرائیل کی پہلی آیت فرمایا:
"پاک ہے وہ اللہ تعالٰی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔"

چودہ سو سال قبل ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے صرف گھوڑے، اونٹ کی سواری موجود تھی اور گھوڑے اونٹ پر سواری اگر مکہ سے یروشلم کریں تو تقریبا 30 سے 40 دن درکار ہوں گے لہذا اللہ نے اپنے نبی کے لئے وہ سواری بھیجی جسکی رفتار روشنی یا روشنی سے بھی تیز تھی جسے "البراق" کہا گیا ہے۔ براق ماخوذ ہے برق سے ہے اور براق اسے کہتے ہیں جس کا مطلب بجلی یا روشنی کی رفتار سے چلنے والی شے یا جاندار۔ اس براق کی سواری پر مکہ سے بیت المقدس کا سفر پلک جھپکنے سے بھی تیز ثابت ہوا کیونکہ یہ سواری روشنی کی رفتار سے سفر مکمل کرتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک انسان اتنی تیز رفتار برداشت کرسکتا ہے؟ تو اس کا جواب بھی ہمیں حدیث سے ملتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا "(معراج پر سفر سے پہلے) میرے پاس جبریل (علیہ اسلام) آئے اور میرا سینہ چاک کیا، میرے دل کو نکالا گیا اور ایک سونے کا طشت لایا گیا جس میں ایمان بھرا ہوا تھا، میرے دل کو اس میں دھویا گیا اور واپس میرے سینے میں اسے رکھ دیا۔"
(صحیح بخاری، حدیث نمبر 3887)

یعنی سینہ چاک کرکے دل کو اللہ نے اتنا مضبوط فرما دیا کہ آپ ﷺ کو روشنی کی رفتار برداشت کرنے کی طاقت عطا فرما دی۔ پھر مسجد الحرام سے مسجد الاقصی لے جایا گیا اور وہاں سے آسمانوں کی طرف، احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے، پہلے آسمان سے ساتویں آسمان تک اور پھر سدرة المنتھی جو کائنات کی آخری حد ہے، جہاں رب تعالی کا عرش مبارک ہے وہاں تک یہ سفر مکمل ہوکر اختتام پزیر ہوا اور اس سفر کے درمیان اللہ نے آپ کو جنت اور دوزخ کے مناظر بھی دکھائے۔

آئیے اب ہم سمجھتے ہیں کہ اب تک کی جدید سائنس کی تھیوریاں اور قوانین کیا کہتے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ کائنات لامحدود ہے اور اس کائنات کا سفر کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس کے لئے آج کے انسانوں کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی زندگی۔ اگر انسان روشنی کی رفتار حاصل کر بھی لے تو انسان کے لئے زندگی کے 50، 100 سال بھی بہت کم ہیں۔

چونکہ سفر معراج کا ایک ہی رات میں شروع ہونا اور اسی رات کے کچھ ہی لمحوں میں مکمل ہونا، یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ یہ سارا سفر براق پر بھی ممکن نہیں کیونکہ براق اگر روشنی کی رفتار سے چلے تو تب بھی سدرة المنتھی تک کے سفر میں اربوں نوری سال درکار ہوں گے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہوا؟ اس سوال کا جواب ہم اس وارم-ہول (worm hole) کی تھیوری سے لیتے ہیں۔ وارم-ہول کو ہم مختصر الفاظ میں یوں بتاتے ہیں کہ یہ وہ شارٹ کٹ راستہ ہے کہ اس کے دروازے کے اندر قدم رکھنے کے بعد ہم کچھ ہی سیکنڈ میں اگلی کائنات میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ وارم ہول کے متعلق آپ مزید پڑھ سکتے ہیں لیکن ہم اسے مختصر بیان کررہے ہیں۔

قرآن کی کچھ آیات، وارم ہول کی طرف اشارہ کرتی ہیں جیسا کہ اللہ فرماتا ہے: "سائل پوچھتا ہے کہ عذاب کب واقع ہوگا؟ ان کافروں کے لئے جسے ہٹانے والا کوئی نہیں۔ اس اللہ کی طرف سے جو معارج والا ہے (سیڑھیوں والا)، جس کی طرف فرشتے اور روح (جبریل) چڑھتے ہیں اس ایک دن میں جس کی مقدار بچاس ہزار سال ہے۔"
(سورة المعارج، آیات 1 سے 4)

اس آیت میں اللہ نے واضح فرمایا ہے کہ اللہ تک پہنچنے کا جو رستہ ہے جسے "المعارج" کہا گیا ہے جو معراج سے بھی اخذ ہے، یہ وہ آسان رستہ ہے کہ جو دنیا کے حساب سے بچاس ہزار سال کا سفر ہے لیکن اسے ایک دن کے برابر کردیا گیا۔ یعنی اس آیت میں واضح اشارہ ہے کہ اللہ وارم-ہول کی طرف اشارہ فرما رہا ہے۔ اس آیت میں ذکر فرشتوں کے سفر کا ہے لیکن یہی راستے نبی کریم ﷺ کو معراج کروانے کے لئے بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ اللہ نے قرآن میں ایک جگہ اور اس راستے یعنی وارم ہول کے متعلق فرمایا ہے:
"اور اگر ہم ان (کافروں) پر آسمان کا دروازہ کھول بھی دیں اور یہ وہاں چڑھنے بھی لگ جائیں۔ تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کر دیا گیا ہے۔"
(سورة الحجر، آیات 14 سے 15)

اللہ نے انتہائی واضح طور پر ان راستوں کا ذکر کیا ہے جسے فرشتے ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف جانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یہ وہی دروازے ہیں جو وارم ہول کی تھیوری میں مذکور ہیں کہ اگر ان کے دروازے کو ایک قدم پھلانگ کر آگے بڑھیں تو کچھ ہی سیکنڈ میں دوسری کائنات میں منتقل ہوچکے ہوں گے یعنی ہزاروں سالوں کی مسافت صرف چند سیکنڈ میں طے پاگئے۔

سفر معراج میں نبی کریم ﷺ نے بھی انہیں آسمان کے دروازوں کا ذکر فرمایا ہے، یعنی پہلے آسمان کا دروازہ کھلا پھر دوسرا اور پھر اسی ترتیب سے ساتویں آسمان کا دروازہ۔ یعنی وارم-ہول کی اس تھیوری سے یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا کہ جن آسمانوں پر چڑھنے کے لئے اربوں نوری سال درکار تھے انہیں وارم-ہول کی تھیوری سے چند ہی سیکنڈوں میں حل کردیا گیا۔

اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جو جنت اور دوزخ کا نظارہ کیا اور ان میں جنتی لوگ اور دوزخی لوگ کون تھے جبکہ ابھی تو قیامت بھی واقعہ نہیں ہوئی اور نہ ہی حساب کتاب ہوا؟ اس کا جواب بھی ہم سائنس کی تھیوری ٹائم ٹریول Time travel سے سمجھتے ہیں۔ اللہ کے نزدیک ماضی، حال اور مسقبل ایک ہی وقت میں موجود ہے۔ چونکہ تھیوری آف ریلیٹی وٹی (theory of relativity) اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وارم ہول ہمیں ایک ہی وقت میں ماضی، حال اور مستقبل میں پہنچا سکتے ہیں۔ لہذا یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کو وارم-ہول کے ذریعے مستقبل کے حالات سے باخبر کیا جو ابھی واقعہ ہونے والا ہے یعنی آپ ﷺ نے جو جنتی اور دوزخی دیکھے وہ ٹائم ٹریول کے تحت دیکھے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی